یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یہ قول کسی کا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
وہ کُچھ نہیں کہتا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
سُن سُن کے تِرے عِشق میں اغیار کے طعنے
میرا ہی کلیجا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
بن آئی ہے جو چاہیں کہیں حضرتِ واعظ
اندیشۂ عُقبیٰ ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
اُن کا یہی سُننا ہے کہ وہ کُچھ نہیں سُنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
دیکھو تو ذرا چشمِ سُخن گو کے اِشارے
پِھر تُم کو یہ دعویٰ ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
خط میں مُجھے اوّل تو سُنائی ہیں ہزاروں
آخر یہی لکھا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
پھٹتا ہے جِگر دیکھ کے قاصِد کی مُصیبت
پُوچھو تو یہ کہتا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
خاموش کِیا چھیڑ کے ظالِم نے شبِ وصل
وہ تذکرہ چھیڑا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
یہ خُوب سمجھ لیجیے غمّاز وہی ہے
جو آپ سے کہتا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
دُنیا مُجھے کہتی ہے بُرا حاضر و غائب
سمجھو تو سبب کیا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
تُم کو یہی شایان ہے کہ تم دیتے ہو دُشنام
مُجھ کو یہی زیبا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا
مشتاق بہت ہیں مِرے کہنے کے پر اے داغؔ
یہ وقت ہی ایسا ہے کہ مَیں کُچھ نہیں کہتا

داغ دہلوی

Comments