غزل کو ماں کی طرح با وقار کرتا ہوں

غزل کو ماں کی طرح با وقار کرتا ہوں
میں مامتا کے کٹوروں میں دودھ بھرتا ہوں

تو آئینہ ہے، تجھے دیکھ کر سنورتا ہوں
کہاں کہاں ترا چہرہ تلاش کرتا ہوں

یہ دیکھ ہجر ترا کتنا خوبصورت ہے
عجیب مرد ہوں سولہ سنگھار کرتا ہوں

بدن سمیٹ کے لے جائے جیسے شام کی دھوپ
تمہارے شہر میں اس طرح گزرتا ہوں

تمام دن کا سفر کر کے روز شام کے بعد
پہاڑیوں سے گھری قبر میں اترتا ہوں

مجھے سکون گھنے جنگلوں میں ملتا ہے
میں راستوں سے نہیں منزلوں سے ڈرتا ہوں

بشیر بدر

Comments