ساون کی سہانی رات بھی ہے برسات بھی ہے

ساون کی سہانی رات بھی ہے برسات بھی ہے
ہاتھوں میں تمہارا ہاتھ بھی ہے برسات بھی ہے
کل پھر حالات کی دھوپ میں جلنا ہے مجھ کو
گو آج تمہارا ساتھ بھی ہے برسات بھی  ہے
آنکھوں میں سلگتے ہجر کی رُت لہراتی ہوئی
ہونٹوں پر وصل کی بات بھی ہے برسات بھی ہے
احساس کے بھیگے پھول کہو تو پیش کروں
ہاتھوں میں مرے سوغات بھی ہے برسات بھی ہے
غلام محمد قاصر

Comments

Post a Comment