تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے

تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے
تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے
ترچھے ترچھے تیر نظر کے لگتے ہیں
سیدھا سیدھا دل پہ نشانا لگتا ہے
آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے
بجھتے بجھتے ایک زمانا لگتا ہے
پاؤں نا باندھا پنچھی کا پر باندھا
آج کا بچہ کتنا سیانا لگتا ہے
سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی چھلنی ہے
ہنستا چہرہ ایک بہانا لگتا ہے
سننے والے گھنٹوں سنتے رہتے ہیں
میرا فسانہ سب کا فسانا لگتا ہے
کیفؔ بتا کیا تیری غزل میں جادو ہے
بچہ بچہ تیرا دوانا لگتا ہے

کیف بھوپالی

Comments