جنت گوش بنی مجھ سے گنہگار کی بات

جنتِ گوش بنی مجھ سے گنہگار کی بات
آ گئی تھی مرے لب پر میرے دلدار کی بات

وہ نہیں ہے تو یونہی دل کو دُکھانے کے لئے
چھیڑ دی ہم نے کسی یارِ دل آزار کی بات

اُس ستمگر کو سبھی لوگ بُرا کہتے ہیں
کوئی سنتا ہی نہیں مرے غم خوار کی بات

خود کو بیچیں تو کہاں ہم کہ دل و جاں کی جگہ
ہر خریدار کرے درہم و دینار کی بات

صوفیِ شہر بھی پردے میں تصوّف کے سہی
چھیڑ دیتا ہے اُسی یارِ طُرحدار کی بات

کل ہوئی حضرتِ ناصح سے ملاقات فرازؔ
پھر وہی پند و نصیحت وہی بیکار کی بات

احمد فراز

Comments