لگتا ہے کر کے لمبا سفر آ رہا ہوں میں

لگتا ہے، کر کے لمبا سفر، آ رہا ہوں میں
حالانکہ گھر سے سیدھا اِدھر آ رہا ہوں میں
بس انتظار تھا کہ تجھے چھوڑ دے وہ شخص
اب اس کا انتظار نہ کر۔۔ آ رہا ہوں میں
یہ فائدہ ہے ، دیکھ! مجھ اندھے سے ربط کا
تاریک راستہ ہے، مگر، آ رہا ہوں میں
کرنے لگے ہیں جو نظر انداز، ان کی خیر
اتنا تو طے ہوا کہ نظر آ رہا ہوں میں
مجھ تک رسائی سہل نہیں ہے ، اِدھر نہ آ
تو خود کہاں کھڑا ہے؟ ٹھہر! آ رہا ہوں میں!
ہر روز کیوں پگھل کے ٹپکتا ہوں آنکھ سے؟
کیسی تپش کے زیرِ اثر آ رہا ہوں میں؟
کچھ بھی یہاں نیا نہیں لگتا مجھے، عمیر!
شاید زمیں پہ بارِ دگر آ رہا ہوں میں
عمیر نجمی

Comments

Post a Comment