اس لمحہ موجود میں کیا ہے سواے آب و گل
اس لمحہ موجود میں کیا ہے سواے آب و گل
آدم کا رستہ دیکھتی حیرت سراے آب و گل
پھولوں بھرا یہ راستہ، کس نے کیا آراستہ
اس باغ پر بھی اک نظر، ناآشناے آب و گل!
یارب یہ کوئی خواب ہے یا خواب کی تعبیر ہے
انگور کی بیلوں تلے شعلے بجاے آب و گل
دامن زمیں کا تھام لے، تیشے سے اپنے کام لے
تیرے ہی اندر رونما فرما ں رواے آب و گل
طغیانِ حیرانی میں ہوں،اس کی ثناخوانی میں ہوں
جس ہاتھ نے پہلے پہل رکھی بناے آب و گل
ثروت حسین
Comments
Post a Comment