آشنا ہوتے ہوئے بھی آشنا کوئی نہیں
آشنا ہوتے ہوئے بھی آشنا کوئی نہیں
جانتے ہیںسب مجھے ،پہچانتا کوئی نہیں
ایک تنہا میرے ذمے کیوںہے کارِ احتجاج
بولنا سب جانتے ہیں،بولتا کوئی نہیں
مے کشی کی بھی سزا ہے،خود کشی کی بھی سزا
کون کس مشکل میںہے ،یہ دیکھتا کوئی نہیں
مختلف لفظوں میںیہ ہے اب مزاجِ دوستی
رابطہ سب سےہے لیکن،واسطہ کوئی نہیں
ہم نے خود پید اکئے ہیںزندگی میںمسئلے
ورنہ سچی بات یہ ہے مسئلہ کوئی نہیں
خود کلامی تھی جسےمیںگفتگو سمجھا کیا
میں اکیلا تھا ، یہاں آیا گیا کوئی نہیں
حسن ہو نامہرباں ،یا عشق ہی بے مہر ہو
ہار دونوں کی ہے اس میںجیتتا کو ئی نہیں
ایک پتھر آج میری آنکھ پر آکر لگا
میں غلط سمجھا ،مجھے پہچانتاکوئی نہیں
اقبال عظیم
Comments
Post a Comment