ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے
ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے
کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے
کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے
یونہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو
یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے
یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے
کہاں اب دعاؤں کی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں
یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے
یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے
وہ دلوں میں آگ لگائے گا میں دلوں کی آگ بجھاؤں گا
اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے
اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے
نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے
کوئی نغمہ دھوپ کے گاؤں سا کوئی نغمہ شام کی چھاؤں سا
ذرا ان پرندوں سے پوچھنا یہ کلام کس کا کلام ہے
ذرا ان پرندوں سے پوچھنا یہ کلام کس کا کلام ہے
شاعر : ڈاکٹر بشیر بدر
Comments
Post a Comment