جن کو ہے بات کا ڈھب نہیں بولتے

جن کو ہے بات کا ڈھب نہیں بولتے
ظرف ہیں جو لبالب نہیں بولتے
بولنے پر نہ یوں ہم کو مجبور کر
ہم نہیں بولتے جب نہیں بولتے
ہم کو معلوم ہے گفتگو کس سے ہے
ہم کو معلوم ہے کب نہیں بولتے
گفتگو کے بھی آخر کچھ آداب ہیں
بھائی! محفل میں یوں سب نہیں بولتے
کیسے کیسے نہ تھے قصہ گو شہر میں
بولتے تھے کبھی،اب نہیں بولتے
آدمی چاہیے بولنے کے لیے
عہدہ و جاہ و منصب نہیں بولتے
ماہ و انجم بھی کرتے ہیں سر گوشیاں
صرف چشم و رخ و لب نہیں بولتے
چپ لگی ہے ہماری زبانوں کو کیوں؟
کس لیے آپ ہم اب نہیں بولتے؟
ضیا الحسن

Comments