صبح کسی ہے وہاں شام کی رنگت کیا ہے

صبح کسی ہے وہاں ، شام کی رنگت کیا ہے
اب ترے شہر میں حالات کی صورت کیا ہے
ایک آزار دھڑکتا ہے یہاں سینے میں
اب تجھے کیسے بتائیں کہ محبت کیا ہے
حکم دیتا ہے تو آواز لرز جاتی ہے
جانے اب کے میرے سالار کی نیت کیا ہے
یہ جو میں پیڑ اگانے میں لگا رہتا ہوں
میں سمجھتا ہوں مری پہلی ضرورت کیا ہے
میرا تو یہ ہے کہ میں بکھرا ہوا ہوں اب تک
تو بتا ! مجھ سے بچھڑ کر تری حالت کیا ہے
آنکھ میں اُڑتی ہوئی دھول بتا دیتی ہے
دل میں آئے ہوئے بھونچال کی شدت کیا ہے
لمحہ لمحہ میں کھنچا جاتا ہوں اس کی جانب
جانے اس مٹی سے اظہرؔ مری نسبت کیا ہے

اظہر ادیب

Comments