تم کوئی اس سے توقع نہ لگانا مرے دوست

تم کوئی اس سے توقع نہ لگانا مرے دوست
یہ زمانہ ہے زمانہ ہے زمانہ مرے دوست
سامنے تو ہو تصور میں کہانی کوئی
اک حقیقت سے بڑا ایک فسانہ مرے دوست
میرے بیٹے میں تمہیں دوست سمجھنے لگا ہوں
تم بڑے ہو کے مجھے دنیا دکھانا مرے دوست
دیکھ سکتا بھی نہیں مجھ کو ضرورت بھی نہیں
میری تصویر مگر اس کو دکھانا مرے دوست
کہنے والے نے کہا دیکھ کے چہرہ میرا
غم خزانہ ہے اسے سب سے چھپانا مرے دوست
تیری محفل کے لیے باعث برکت ہوگا
نا مرادان محبت کو بلانا مرے دوست
تم کو معلوم تو ہے مجھ پہ جو گزری تیمورؔ
پوچھ کر مجھ سے ضروری ہے رلانا مرے دوست

تیمور حسن تیمور

Comments