ہوتا رہے گا یوں ہی نظارہ کہ اب نہیں

ہوتا رہے گا یوں ہی نظارہ کہ اب نہیں
پہلے ہی کب تھا اپنا گذارا کہ اب نہیں

وہ چاند پھر چڑھے گا کبھی، پوچھتا ہے دل
کہتا ہے شام ِہجر کا تارا ، کہ اب نہیں

راضی رہیں گے اس کی رضا پر اسی طرح
کہنا پڑے نہ اس کو دوبارہ کہ اب نہیں

چھوڑا ہے جب سے اس نے وہ انداز ِالتفات
ہم نے بھی کرلیا ہے کنارہ کہ اب نہیں

دھڑکے گا جب تک اس کی اجازت رہی یہ دل
رک جائے گا جب اس نے پکارا کہ اب نہیں

ہم اتنے عقلمند نہ ہوں گے، مگر ظفر
کافی تھا اس کا ایک اشارہ کہ اب نہیں

ظفر اقبال

Comments