ہر موج ہے افسردہ تو مغموم ہیں دھارے

ہر موج ہے افسردہ تو مغموم ہیں دھارے

ایسے میں کوئی شور تلاطم کو پکارے

خود نکہت گل جرم چمن میں تھی ملوث

جب غور سے دیکھا تو نہ بجلی نہ شرارے

مائل بہ تغیر ہے یہاں فطرت بےتاب

بدنام ہیں ساقی کی نگاہوں کے اشارے

شاخوں پہ یہ بکھرے ہوئے گیسوئے پریشاں

منسوب ہیں ان سے مرے الہام کے پارے

آئین مروت وہی ترتیب کرے گا

جو اپنے لہو سے رخ آلام نکھارے

شاید کہ نئی فصل کی تقدیر جگا دیں

یہ ہوش میں ڑوبے ہوئے مدہوش نظارے

ساغر صدیقی

Comments