شب ہجراں کی اشاعت میں ہیں جاری آنکھیں
شب ہجراں کی اشاعت میں ہیں جاری آنکھیں
چھوڑ کر آئی ہیں خوابوں کی سواری آنکھیں
مجھ کو تعبیر کی صورت نظر آنے لگا تو
سرُمۂ خواب سے جب میں نے سنواری آنکھیں
دیکھ کر مجھ کو جلِا میں یہ تحیر کیوں ہے
ظرفِ آئینہ پہ کیا ہو گئیں بھاری آنکھیں
آپ کا قرض محبت میں چکاؤں بھی تو کیوں
آپ کی آنکھوں میں گروی ہیں ہماری آنکھیں
آئینہ عکس کو یوں جذب کئے رہتا ہے
جیسے آنکھوں میں مری صرف تمہاری آنکھیں
آج شرمندہ ء تعبیر ہوا وصل کا خواب
اک سہاگن نے ابھی کھولیں کنواری آنکھیں
تیری آنکھوں نے مجھے جیت لیاہے جاناں
ا ک نظر دیکھ کے اک آن میں ہاری آنکھیں
صفحہ دل یہ صدف بھیگ چکا ہے کتنا
ہو نہ ہو تم نے غزل میں ہیں اتاری آنکھیں
صدف اقبال
Comments
Post a Comment