اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے

اشارے کیا نگۂ ناز دل رُبا کے چلے
سِتم کے تِیر چلے نِیمچے قضا کے چلے
گُنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے
خُدا کے آگے خِجالَت سے سر جُھکا کے چلے
طلب سے عار ہے اللہ سے فقیروں کو
کہِیں جو ہو گیا پھیرا صدا سُنا کے چلے
پُکارے کہتی تھی حسرت سے نعش عاشِق کی
صنم کِدھر کو ہمیں خاک میں مِلا کے چلے
مثال ماہیِ بے آب موجیں تڑپا کِیں
حباب پُھوٹ کے روئے جو تُم نہا کے چلے
مقام یُوں ہُوا اِس کارگاۂ دُنیا میں
کہ جیسے دِن کو مُسافر سرا میں آ کے چلے
کِسی کا دِل نہ کِیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے
مِلا جِنہیں اُنہیں اُفتادگی سے اَوج مِلا
اُنہِیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اُٹھا کے چلے
انیسؔ دَم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہَوا کے چلے۔۔۔!

میر انیس

Comments