تو کہیں بھی رہے سر پر تیرے الزام تو ہے

تُو کہیں بھی رہے سر پر تیرے اِلزام تو ہے
تیرے ہاتھوں کی لکِیروں میں میرا نام تو ہے

مُجھ کو تُو اپنا بنا یا نہ بنا تیری خوشی
تُو زمانے میں میرے نام سے بدنام تو ہے

میرے حصے میں کوئی جام نہ آئے نہ سہی
تیری محفل میں میرے نام کوئی شام تو ہے

دیکھ کر لوگ مجھے نام تیرا لیتے ہیں
اس پہ میں خُوش ہوں محبت کا یہ انجام تو ہے

وہ سِتمگر ہی سہی دیکھ کے اس کو صابرؔ
شُکر، اِس دلِ بیمار کو آرام تو ہے

صابر جلال آبادی

Comments