سفر یہ رونے کا اپنے جو شست و شو ٹھہرا

سفر یہ رونے کا اپنے جو شست و شو ٹھہرا
کہ زخم تیری جدائی کا مو بہ مو ٹھہرا

وہ جس کا خواب میں آنا بھی ایک حسرت تھی
یہ معجزہ کہ وہی آ کے رو برو ٹھہرا

میں خود کو ڈھونڈتا پھرتا تھا کتنی صدیوں میں
ترے وصال کے لمحے میں ہو بہو ٹھہرا

تری طلب کی مسافت بھی کائیناتی ہے
یہ خوشبوؤں کا سفر ہے سو کوبکو ٹھہرا

فصیلِ رمز عبوری تو پھر کھلا مجھ پر
یہ خواب خواب سمندر تو آب جو ٹھہرا

نہ جانے کون سے جملے پہ آپ چونکے ہیں
ہمارا قصہ تو سارا لہو لہو ٹھہرا. . . . .

جو اپنی آئی پہ آؤں تو چھوڑ دوں تجھ کو
میں ضد میں اپنا نہیں اور, تُو تو تُو ٹھہرا

خالد ندیم شانی

Comments