سوچ بنتی ہوئی کاغذ پہ خیالی آنکھیں

سوچ بنتی ہوئی کاغذ پہ خیالی آنکھیں
اس کے کمرے سے چرالیں وہ نرالی آنکھیں

گرتی اٹھتی ہوئیں پلکوں سے توقف کرتیں
کیا کہوں کتنی مدلل ہیں مثالی آنکھیں

یاد کرنا ہو سبق جیسے ضروری کوئ
میں نے چہرے پہ یونہی اسکے گڑالی آنکھیں

ہم سے دیکھی نہ گئ انکی جو بیباک نظر
اوٹ میں ہاتھ کے پھر ہم نے چھپالی آنکھیں

روز چھپ چھپ کےانھیں دیکھتی رہتی ہوں میں
روز کاغذ پہ بناتی ہوں خیالی آنکھیں

میری باتوں پہ یونہی روٹھ کے کہنا اسکا
رونا روتی ہیں مگر مچھ کا غزالی آنکھیں

ورنہ وہ کھینچ کے لے جاتیں تہہ چشم انھیں
کھینچ کر ہم نے ان آنکھوں سے نکالی آنکھیں

چائے خانے کی کسی میز پہ اک میں اک تو
شام، خاموشی، جھجھک، چائے، متالی، آنکھیں

نامعلوم

Comments