کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا

کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دلِ غم دیدہ کہیں تھا
کس رات نظر کی ہے سوئے چشمکِ انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا
آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے لیکن
ہونٹوں پہ مرے جب نفسِ باز پسیں تھا
اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ
جو درد و الم تھا سو کہے تو کہ وہیں تھا
جانا نہیں کچھ جز غزل آ کر کے جہاں میں
کل میرے تصرّف میں یہی قطعہ زمیں تھا
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انہوں کا
جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیرِ نگیں تھا
مسجد میں امام آج ہوا آ کے وہاں سے
کل تک تو یہی میر خرابات نشیں تھا
میر تقی میر

Comments