ایسے ٹوٹا ہے تمناؤں کا پندار کہ بس

ایسے ٹُوٹا ہے تمناؤں کا پندار کہ بس
دل نے جھیلا ہے محبت میں وہ آزار کہ بس
ایک جھونکے میں زمانے میرے ہاتھوں سے گئے
اس قدر تیز ہوئی وقت کی رفتار کہ بس
تُو کبھی رکھ کے ہمیں دیکھ تو بازار کے بیچ
اس قدر ٹُوٹ کے آئیں گے خریدار کہ بس
کل بھی صدیوں کی مسافت سے پرے تھے دونوں
درمیان آج بھی پڑتی ہے وہ دیوار کہ بس
یہ تو اک ضد ہے کہ راجا ؔمیں شکایت نہ کروں
ورنہ شکوے تو ہیں اتنے میرے یار کہ بس

احمد رضا راجا

Comments