لفظ دیوار پر اشعار

زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمین
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں‌ سر لگتا ہے
بشیر بدر
۔۔
درکار تحفظ ہے پہ سانس بھی لینا ہے
دیوار بناؤ تو دیوار میں در رکھنا
آنس معین
۔۔۔
اٹھ رہا ہے دھواں مرے گھر میں
آگ دیوار سے ادھر کی ہے
رسا چغتائی
۔۔۔۔
خالی دیوار بری لگتی ہے
میری تصویر ہی رہنے دیتے
عبید حارث
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
شکیب جلالی
دو گھڑی اس سے رہو دور تو یوں لگتا ہے
جس طرح سایۂ دیوار سے دیوار جدا
احمد فراز
جو رکاوٹ تھی ہماری راہ کی
راستہ نکلا اسی دیوار سے
اظہر عباس
میں بچھڑوں کو ملانے جا رہا ہوں
چلو دیوار ڈھانے جا رہا ہوں
فرحت احساس
میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اتارے کون اب دیوار پر سے
جون ایلیا
نہ جانے کیسی محرومی پس رفتار چلتی ہے
ہمیشہ میرے آگے آگے اک دیوار چلتی ہے
عزیز نبیل
میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں لیکن
مرے لہو سے تمہاری دیوار گل رہی ہے
جاوید اختر
بیٹھا ہی رہا صبح سے میں دھوپ ڈھلے تک
سایہ ہی سمجھتی رہی دیوار مجھے بھی
شہزاد احمد
روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن
خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے
عرفان صدیقی
جدا تھی بام سے دیوار در اکیلا تھا
مکیں تھے خود میں مگن اور گھر اکیلا تھا
جاوید شاہین
کبھی دیوار کو ترسے کبھی در کو ترسے
ہم ہوئے خانہ بدوش ایسے کہ گھر کو ترسے
جواز جعفری
اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں
دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا
امید فاضلی
پلٹ پڑا جو میں سر پھوڑ کر محبت میں
تو راستہ اسی دیوار سے نکل آیا
ظفر اقبال
چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں
دیوار سے پرانا کلینڈر اتار دے
ظفر اقبال
دھوپ بڑھتے ہی جدا ہو جائے گا
سایۂ دیوار بھی دیوار سے
بہرام طارق
کل جہاں دیوار ہی دیوار تھی
اب وہاں در ہے جبیں ہے عشق ہے
توقیر تقی
ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم
گھر کی دیوار باپ کا سایا
نامعلوم

Comments