مچھلیاں جال مچھیرے دریا

مَچھلیاں ' جال ' مچھیرے ' دریا
یہ مِرے خواب ' یہ بَہتے دریا
برف پگھلی تِری کروٹ پا کر
تیری آواز پَہ جاگے دریا
یہ رَوانی نہیں دیکھی ہو گی
تُو نے دیکھے ہیں بہُت سے دریا
جس نے دیکھی نہیں آنکھیں تیری
وہ کبھی شام کو دیکھے دریا
کس کو کس پار اُترنا ہے ، بتا
اِس کہانی میں ہیں کتنے دریا ؟
کَشتی ء نُوح میں بیٹھا ہُوں مَیں کیا
پیچھے طُوفاں ہے اُور آگے دریا
ڈوبنے والے بتاتے ہی نہیں
کس قدَر ہوتے ہیں گہرے دریا
بستیاں اُن کو بھی آتی ہیں نظر
اِتنے اندھے نہیں ہوتے دریا
تو نے پایاب کیا ہے مجھ کو
میں ہوا کرتا تھا پہلے دریا
تو نہیں جانتا پانی کی کشش
تو نے دیکھے نہیں ایسے دریا
اشرف یُوسُفی

Comments

  1. https://auto.indexbacklink.com/domain/sadurdubluepoetry.com

    ReplyDelete

Post a Comment