آنکھ سے آنسو گرے آئینے سے ریت گری

آنکھ سے آنسو گرے آئینے سے ریت گری
پانی سے کھنچی تھی تصویر مگر آہی گئی
آخری بار وہ بھیگی ہوئی آنکھیں دیکھیں
اور پھر ان میں بسے خواب پہ تنقید کری
یاد آیا تو کہاں چھوڑ کے آیا تھا مجھے
دل کے اندر کوئی تکلیف سی محسوس ہوئی
ایک دیوار نے دونوں کو اندھیرے میں رکھا
اور پھر رات سے پہلے ہی ہمیں چاٹ گئی
سیر پر آئے کسی شخص کے بارے میں سنا
اک عمارت پہ بنی تیسری کھڑکی چونکی
کتنے قطرے کیے گمراہ سمندر کہہ کر
کتنے ذرات کی طاقت سے تباہی ہو گی ؟
ایک جنگل پہ مری بھوک کا مذہب اترا
ایک دریا پہ مری پیاس کی تہذیب بنی
کچھ کتابوں میں ترے باغ کے بارے میں پڑھا
اور پھر تیری کئی لوگوں سے تعریف سنی
فیضان ہاشمی

Comments