ماضی کو بھی دیکھیں گے اب اپنی ہی نظر سے


ماضی کو بھی دیکھیں گے اب اپنی ہی نظر سے
اس کی بھی خبر کچھ نہ ملی اہلِ خبر سے
کچھ گم ہوۓ اوراق روایت میں نہ آ کر
کچھ مسخ ہوۓ حسنِ روایت کے اثر سے

گردش میں ہیں سب دشت و دیار و در و دیوار
وہ بھی ہیں سفر میں کہ جو نکلے نہیں گھر سے
فرسودگئ رنگِ گلستاں سے ہوں بے زار
اکتایا ہوا برگ و بر و شاخ و ثمر سے
آۓ تو سہی سامنے وہ عکسِ گریزاں
آنکھیں بھی نہ جھپکوں گا گزر جانے کے ڈر سے



 فارغ نہیں میں خود سے کہ رہتا ہے شب و روز
آشوب مِرے دل میں، مِرے فتنۂ سر سے

خورشید رضوی

Comments