اس شہر عزت داراں میں ہم مال ومنال نہیں رکھتے

اس شہر عزت داراں میں ہم مال ومنال نہیں رکھتے
کبھی اپنا خیال نہیں رکھتے کبھی اس کاخیال نہیں رکھتے

کبھی چاہاتھا کسی صورت کو کبھی پوجا تھا کسی مورت کو 
اب ہجر کی حد سے باہر ہیں اب شوقِ وصال نہیں رکھتے



وہ گل ہیں کون سی کیاری میں، جنھیں مرجھانے کی فکر نہیں
وہ آئینے کس دُکان میں ہیں جوگردِ ملال نہیں رکھتے

یہ اور طرح کے شکاری ہیں، بس تیرِ ستم کے پجاری ہیں 
کچھ دانہ ان کے پاس نہیں، یہ کوئی جال نہیں رکھتے

بے بال وپری میں زندہ ہیں پرخود سے کہاں شرمندہ ہیں
ہمیں فکرِ عروج سے کیا لینا جب فکرِ زوال نہیں رکھتے

اسباب وعلل سے دوری ہی ہم لوگوں کی مجبوری ہے
ہم بندے اپنے رب کے ہیں، سوکچھ جنجال نہیں رکھتے

ا س شہر گماں میں مستقبل اورحال کی صورت ایک سی ہے
اس خوف سے اپنے بچے کاہم نام اقبال نہیں رکھتے
اسعد بدایونی

Comments