جس یقین سے جو لکھنا تھا نہیں لکھا گیا

جس یقین سے جو لکھنا تھا نہیں لکھا گیا
آسماں کاٹ کے مٹی پہ زمیں لکھاگیا
میری پیشانی دمکتی ہے ستاروں سے سوا
تیرے ہاتھوں سے جہاں حرفِ یقیں لکھا گیا



 موج در موج سمندر سے ملاقات ہوئی
خواب کو خواب سرِسطحِ زمیں لکھا گیا
عکس درعکس جو لکھنا تھا مجھے اُس کا جمال
آئینہ خانہء حیرت کے تئیں لکھا گیا
دیکھ کر اُس کو مِرے ہوش ٹکھانے نہ رہے
اِسم لکھنا تھا کہیں اور کہیں لکھا گیا
ہاں اُٹھایا تھا قلم کربلا والوں کے لیے 
لکھنا چاہا تھا مگر مجھ سے نہیں لکھا گیا
دونوں سرمست ہیں احساسِ سخن سازی میں
روشنی آنکھ کو اور دل کو حزیں لکھا گیا
یوں تو صفحات سیہ کرتا رہا میں اظہر
چاہتا تھا جو مرا شوق نہیں لکھا گیا
محمود اظہر

Comments