کون سمجھے گا مرے بعد اشارے اس کے

کون سمجھے گا مرے بعد اشارے اس کے
ٹوٹ کر خاک میں ملتے ہیں ستارے اس کے



 اب ہمیں آنکھ اٹھا کر نہیں تکتا وہ شخص
کتنے مضبوط مراسم تھے ہمارے اس کے
جو سمندر مرے اطراف رواں ہے سرِ خاک
ڈھونڈتا رہتا ہوں دن رات کنارے اس کے
اس کا نقصان حقیقت میں مرا اپنا ہے
میرے حصے ہی میں آتے ہیں خسارے اس کے
کتنی آسانی سے دیکھا تھا اسے پتھر میں
کتنی مشکل سے خدو خال سنوارے اس کے
صوت میں جتنا خلا ہے اسے پر کر دے صدا
اس تسلسل سے کوئی نام پکارے اس کے
ختم ہو سکتی ہے اظہر یہ لڑائی اپنی
اب بھی کچھ لوگ سلامت ہیں ہمارے اس کے
محمود اظہر

Comments