پھیلی ہوئی ہے دہر میں سب کوزہ گری ہے

پھیلی ہوئی ہے دہر میں سب کوزہ گری ہے
دل جس سے فروزاں ہے عجب کوزہ گری ہے

ایسے ہی نہیں ہوگئی تخلیق یہ دنیا
کر غور عوامل پہ سبب کوزہ گری ہے

اک نامِ محمد جوسماعت سے ہوا مس
تخلیق کی معراج پہ اب کوزہ گری ہے

لفظوں کے جھمیلے میں الجھتا ہوا شاعر
آنکھوں سے عیاں ہوتی طلب کوزہ گری ہے

قرآن کے اوراق میں ہے قصہء یوسف
حیراں تھا سبھی مصر غضب کوزہ گری ہے

آ تیری بھی تشکیل کیے دیتا ہوں پھر سے
برسات ہے توحید کی جب کوزہ گری ہے

اب خاک کی افلاک پہ ہونی ہے منادی
ماجد پہ کٹھن آخری شب کوزہ گری ہے
ماجد جہانگیر مرزا

Comments