گو نظر اکثر وہ حسن لا زوال آ جائے گا

گو نظر اکثر وہ حسنِ لا زوال آ جاۓ گا
راہ میں لیکن سرابِ ماہ و سال آ جاۓ گا
یا شکن آلود ہو جاۓ گی منظر کی جبیں
یا ہماری آنکھ کے شیشے میں بال آ جاۓ گا

ریت پر صورت گری کرتی ہے کیا بادِ جنوب
کوئی دم میں موجۂ بادِ شمال آ جاۓ گا
دوستو! میری طبیعت کا بھروسہ کچھ نہیں
ہنستے ہنستے آنکھ میں رنگِ ملال آ جاۓ گا
جانے کس دن ہاتھ سے رکھ دوں گا دنیا کی زمام
جانے کس دن ترکِ دنیا کا خیال آ جاۓ گا
حادثہ یہ ہے کہ ساری ذِلتوں کے باوجود
رفتہ رفتہ زخم سُوۓ اندمال آ جاۓ گا

خورشید رضوی

Comments