بے نام چاہتوں کا اثر دیکھنا بھی ہے

بے نام چاہتوں کا اثر دیکھنا بھی ہے 
شاخ ِ نظر پہ حسن ِ ثمر دیکھنا بھی ہے

اب کے اسے قریب سے چھونا بھی ہے ضرور 
پتھر ہے آئینہ کہ گہر دیکھتا بھی ہے

یہ شہر چھوڑنا ہے مگر اس سے پیشتر 
اُس بے وفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے



ان آنسوؤں کے ساتھ بصارت ہی بہہ نہ جاۓ
اتنا نہ رو اے دیدہء تر دیکھنا بھی ہے

ممکن نہیں ہے اس کو لگاتار دیکھنا 
رک رک کے اس کو دیکھ اگر دیکھنا بھی ہے

منظر ہے دلخراش مگر دل کا کیا کریں 
گو دیکھنا نہیں ہے مگر دیکھنا بھی ہے

اس آس پر کھڑے ہیں کہ اک بار یوسفی 
اس نے ذرا پلٹ کے ادھر دیکھنا بھی ہے

اشرف یوسفی

Comments