تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے

تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے 
کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے 



 اندر سب آ گیا ہے باہر کا بھی اندھیرا 
خود رات ہو گیا ہوں میں شام کرتے کرتے 
یہ عمر تھی ہی ایسی جیسی گزار دی ہے 
بدنام ہوتے ہوتے بدنام کرتے کرتے 
پھنستا نہیں پرندہ ہے بھی اسی فضا میں 
تنگ آ گیا ہوں دل کو یوں دام کرتے کرتے 
کچھ بے خبر نہیں تھے جو جانتے ہیں مجھ کو 
میں کوچ کر رہا تھا بسرام کرتے کرتے 
سر سے گزر گیا ہے پانی تو زور کرتا 
سب روک رکتے رکتے سب تھام کرتے کرتے 
کس کے طواف میں تھے اور یہ دن آ گئے ہیں 
کیا خاک تھی کہ جس کو احرام کرتے کرتے 
جس موڑ سے چلے تھے پہنچے ہیں پھر وہیں پر 
اک رائیگاں سفر کو انجام کرتے کرتے 
آخر ظفرؔ ہوا ہوں منظر سے خود ہی غائب 
اسلوب خاص اپنا میں عام کرتے کرتے
ظفر اقبال

Comments