ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب لگی شرط

ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب، لگی شرط
دھتکارنے والی ہوں میں سب خواب، لگی شرط



 اے شام کے بھٹکے ہوۓ ماہتاب، سنبھل کر
ہے گھات میں بستی کا یہ تالاب، لگی شرط

اچھا تو وہ تسخیر نہیں ہوتا کسی سے؟
یہ بات ہے تو آج سے احباب، لگی شرط
پھر ایک اسے فون میں رو رو کے کروں گی
پھر چھوڑ کے آ جاۓ گا وہ جاب، لگی شرط
اس شخص پہ بس اور ذرا کام کروں گی
سیکھے گا محبت کے وہ آداب، لگی شرط
جو دکھ کی رُتوں میں بھی ہنسی اوڑھ کے رکھیں
ہم ایسے اداکار ہیں نایاب، لگی شرط
جب چاہوں تجھے توڑ دوں میں کھول کے آنکھیں
اے چشمِ اذیت کے برے خواب! لگی شرط

کومل جوئیہ

Comments