خواب اور خواب کا فسوں نہیں کچھ

خواب اور خواب کا فسوں نہیں کچھ
آنکھ کھل جائے تو جنوں نہیں کچھ
حسن کہتا ہے بات کر مجھ سے
عشق کہتا ہے میں کہوں نہیں کچھ



 اور کچھ چاہیے محبت میں
حالتِ حالِ دل زبوں نہیں کچھ
رائگاں جا رہے ہیں نقش مرے
آئینہ خانہ ہی فزوں نہیں کچھ
تو بہت احتیاط کرتا تھا
تیرے ہاتھوں میں آج کیوں نہیں کچھ
آسماں یوں بھی ہم پہ گرتا ہے
شقف تو چھوڑیے ستوں نہیں کچھ
اس نے ماتھے پہ ہونٹ رکھ کے کہا
آج یہ زخمِ نیلگوں نہیں کچھ
لوٹ آتی ہے وہ نظر خالی
کیا مری ذات کے دروں نہیں کچھ
کام سر پر پڑے رہیں اظہر
اور میں بیٹھا رہوں کروں نہیں کچھ
محمود اظہر

Comments