یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ہم ہوئے

یہ سوچ کر نہ مائلِ فریاد ہم ہوئے
آباد کب ہوے تھے کہ برباد ہم ہوئے

ہوتا ہے شاد کام یہاں کون با ضمیر
ناشاد ہم ہوئے تو بہت شاد ہم ہوئے

پرویز کے جلال سے ٹکرائے ہم بھی ہیں 
یہ اور بات ہے کہ نہ فرہاد ہم ہوئے



کچھ ایسے بھا گئے ہمیں دنیا کے رنج و غم
کوئے بتاں میں بھولی ہوئی یاد ہم ہوئے

جالب تمام عمر ہمیں یہ گماں رہا
اس زلف کے خیال سے آزاد ہم ہوئے

حبیب جالب

Comments