رب کعبہ کی طرف اذن و عنایت سے گیا

ربّ کعبہ کی طرف اِذن و عنایت سے گیا
شکرِ نعمت کو گیا، قصدِ زیارت سے گیا
وادیٔ شہرِ مکرّم سے مدینے کی طرف
والئیؐ شہرِ مدینہ کی اجازت سے گیا
سارے اسباب تو پہلے سے بہم ہو چکے تھے
حکم کی دیر تھی، حکم آیا تو عجلت سے گیا



 سجدہ ریزی کی مری مشق پرانی تھی، سو میں
سجدے کرتا ہوا ہر منزلِ طاعت سے گیا
میں غلاموں کی قطاروں میں کھڑا آخری شخص
بابِ رحمت کی طرف بابِ امانت سے گیا
کہیں گریہ کیا پیہم ادب آداب کے ساتھ
کہیں وارفتگیٔ شوق کی شدّت سے گیا
چین دیتا ہے بہت دل کو قیامِ حرمین
دل کو آرام کی حاجت تھی، ضرورت سے گیا
کتنے دُشوار مراحل تھے وہؐ جب گزرے تھے
میں بہت سہل اُسی جادۂ ہجرت سے گیا
وہ مدینے میں جو دو باغ ہیں جنت کے، اُدھر
بیعتِ سلسلۂ نُور کی نیت سے گیا
ایسا میں کون سا شاعر ہوں مگر میرے نصیب
مدحتِ سرورِ کونینؐ کی نسبت سے گیا
افتخار عارف

Comments