جب تک حواس جبر پہ طاری نہیں ہوئے

جب تک حواسِ جبر پہ طاری نہیں ہوئے
تہمت ہو تم قلم پہ، لکھاری نہیں ہوئے
یہ بھی یزیدِ وقت کی بیعت کا ہے نشاں
فتوے تمھارے قتل کے جاری نہیں ہوئے
مجمع لگا لگا کے اداکاریاں کریں

اس پر گھمنڈ بھی کہ مداری نہیں ہوئے



 وہ ہم تھے شام تک جنھیں کافر کہا گیا
سورج کو دیکھ کر بھی پجاری نہیں ہوئے
ہم جنگوؤں نے رات میں آوارگی بھی کی
چمگادڑوں کے پھر بھی حواری نہیں ہوئے
غالب کے دور میں بھی اٹھائے نہ جا سکے
مصرعے ہمارے آج ہی بھاری نہیں ہوئے
شاعر اٹھائے جائیں گے مصرعے کی کیا مجال
کیا کیا ہیں خفیہ حکم جو جاری نہیں ہوئے
کشکول حرف لائے ہیں لبریز عشق سے
ہم وہ فقیر ہیں جو بھکاری نہیں ہوئے
عطا تراب

Comments