چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے​

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے​
پہ کیا کریں ہمیں‌ اک دوسرے کی عادت ہے​
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع​
میں آئینہ ہوں‌ مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے​
میں کیا کہوں، کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا​
میں کیا کروں، کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے​



 ​
ترے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی​
نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے​
وصال میں‌ بھی وہی ہے فراق کا عالم​
کہ اُس کو نیند مجھے رت جگے کی عادت ہے​
یہ مشکلیں ہیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں​
میں ناصبور اُسے سوچنے کی عادت ہے​
یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اُسے​
نہ یاد کر کہ جسے بُھولنے کی عادت ہے​
احمد فراز​

Comments