میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں

میں ہوں عاصی کہ پر خطا، کچھ ہوں
تیرا بندہ ہوں اے خدا کچھ ہوں



 جزو کل کو نہیں سمجھتا میں
دل میں تھوڑا سا جانتا کچھ ہوں
تجھ سے الفت نباہتا ہوں میں
با وفا ہوں کہ بے وفا کچھ ہوں
نشۂ عشق لے اڑا ہے مجھے
اب مزے میں اڑا رہا کچھ ہوں

خواب میں اس میں بھی دیکھتا کچھ ہوں
گرچہ کچھ بھی نہیں ہوں میں لیکن
اس پہ بھی کچھ نہ پوچھو کیا کچھ ہوں
سمجھے وہ اپنا خاکسار مجھے
خاکِ رہ ہوں کہ خاکِ پا کچھ ہوں
چشمِ الطاف فخرِ دیں سے ہوں
اے ظفرؔ کچھ سے ہو گیا کچھ ہوں

بہادر شاہ ظفر

Comments