وہ سخی ہے تو کسی روز بلا کر لے جائے

وہ سخی ہے تو کسی روز بلا کر لے جائے
اور مجھے وصل کے آداب سکھا کر لے جائے
میرے اندر کسی افسوس کی تاریکی ہے
اس اندھیرے میں کوئی آگ جلا کر لے جائے
یہ مری روح میں ندی کی تھکن کیسی ہے
وہ سمندر کی طرح آئے بہا کر لے جائے
ہجر میں جسم کے اسرار کہاں کھلتے ہیں
اب وہی سحر کرے پیار سے آکر لے جائے
خاک آنکھوں میں ہے وہ خواب کہاں ملتا ہے
جو مجھے قید مناظر سے رہا کر لے جائے
ساقی فاروقی

Comments