یارو نگہ یار کو یاروں سے گلہ ہے
یارو! نگہ یار کو، یاروں سے گِلہ ہے
خونِیں جگروں، سینہ فگاروں سے گِلہ ہے
جاں سے بھی گئے، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی
جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گِلہ ہے
اب وصل ہو یا ہجر، نہ اب تک بسر آیا
اِک لمحہ، جسے لمحہ شماروں سے گِلہ ہے
اُڑتی ہے ہر اِک شور کے سینے سے خموشی
صحراؤں کو پُر شور دیاروں سے گِلہ ہے
بیکار کی اِک کار گزاری کے حسابوں
بیکار ہوں اور کارگزاروں سے گِلہ ہے
میں آس کی بستی میں گیا تھا، سو یہ پایا
جو بھی ہے اُسے اپنے سہاروں سے گِلہ ہے
بے فصل اِشاروں سے ہوا خون جنوں کا
اُن شوخ نگاہوں کے اِشاروں سے گِلہ ہے
جون ایلیا
Comments
Post a Comment