ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی

ہم نہ سمجھے تھے بات اِتنی سی
خواب شیشے کے دُنیا پتھر کی

آرزو ہم نے کی تو غم پائے
روشنی ساتھ لائی تھی سائے
سائے گہرے تھے روشنی ہلکی

صرف ویرانی صرف تنہائی
زندگی ہم کو یہ کہاں لائی
کھو گئی ہم سے راہ منزل کی

کیا کوئی بیچے کیا کوئی بانٹے
اپنے دامن میں صرف ہیں کانٹے
اور دُکانیں ہیں صرف پھُولوں کی

جاوید اختر

Comments