دید کی تمنا میں آنکھ بھر کے روئے تھے

دید کی تمنا میں آنکھ بھر کے روئے تھے
ہم بھی ایک چہرے کو یاد کر کے روئے تھے

سامنے تو لوگوں کے غم چھپا لئے اپنے
اور جب ہوئے تنہا ہم بکھر کے روئے تھے

ہم سے ان اندھیروں کو کس لیے شکایت ہے
ہم تو خود چراغوں کی لو کتر کے روئے تھے

جب تلک تھے کشتی پر خود کو روک رکھا تھا
ساحلوں پہ آتے ہی ہم اتر کے روئے تھے

آئینے میں روتا وہ عکس بھی ہمارا تھا
جس کو دیکھ کر اکثر ہم بپھر کے روئے تھے

یاد ہے ابھی تک وہ ایک شام بچپن کی
جانے کیا ہوا تھا سب لوگ گھر کے روئے تھے

ساحلوں پہ آتی ہے آج بھی صدا ان کی
ڈوبنے سے کچھ پہلے جو ابھر کے روئے تھے

ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی
رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے

تب پتا چلا ہم کو زخم کتنے گہرے ہیں
درد کے نشیبوں میں جب اتر کے روئے تھے

ہم نے اپنی آنکھوں سے حادثہ وہ دیکھا تھا
پتھروں کی بستی میں زخم سر کے روئے تھے

بھارت بھوشن پنت

Comments