مشقت بک گئی ہے درہم و دینار کے آگے

مشقت بک گئی ہے درہم و دینار کے آگے

کہ یہ اک جنس ِ ارزاں تھی مرے زردار کے آگے

تجسس کی نظر سے دیکھتا ہے وقت بھی مجھ کو

میں ُکھلتی ہی نہیں اس صاحب ِ اسرار کے آگے

فروزاں ہے ہر اک لذت سے لطفِ وصل کی ساعت

کہ ساقی خود سبُو لاۓ شب بے دار کے آگے

وہ انساں ہی تھے اپنی جان کی بازی لگاتے تھے

مزاحم کتنے ہیں اب وقت کی یلغار کے آگے

خموشی ٹوٹ جاۓ گی مظالم کے سمندر میں

یہ خلقت ڈٹ گئی اک دن اگر سرکار کے آگے

تری تو خوش گلوئی تھی کی جاں تُو میری ہے عنبر

کوئی مجھ کو نہیں بھاتا تھا اس چہکار کے آگے

نادیہ عنبر لودھی

Comments