کیسے دنیا کا جائزہ لیا جائے

کیسے دنیا کا جائزہ لیا جائے
دھیان تجھ سے اگر ہٹا لیا جائے
تیز آندھی میں یہ بھی کافی ہے
پیڑ تصویر میں بچا لیا جائے
ہم جسے چاہے اپنا کہتے رہیں
وہی اپنا ہے جسکو پا لیا جائے
یہ خموشی مری خموشی ہے
اسکا مطلب مکالمہ لیا جائے
ایک ہونے کی قسمیں کھائی جائیں
اور آخر میں کچھ دیا لیا جائے
کیوں نہ آج اپنی بے بسی کا فراغ
دور سے بیٹھ کر مزہ لیا جائے
اظہر فراغ

Comments