یوں تو کہنے کو تھا دل کی ترجمانی کا سفر

یُوں تو کہنے کو تھا دل کی ترجمانی کا سفر
تھا بہت دُشوار لفظوں میں کہانی کا سفر
پہلے ہر کردار سے پوچھیں گے اُسکی خیریت
پھر بتائیں گے، رہا کیسا کہانی کا سفر
تم مجھے دریا سمجھ لو اور میری زندگی
کوہساروں سے سمندر کی روانی کا سفر
کیسے عِبرت ناک اندیشے مِرے ہمراہ تھے
تھا در و دیوار سے جب بے مکانی کا سفر
چاہتا تھا، درج ہو جاؤں کہیں تاریخ میں
کر گیا مجھ کو فنا، یہ زندگانی کا سفر
پہلے تھی ہر راستے پر ثَبت ہونے کی ہوَس
نقشِ پا نے طے کِیا پھر بے نشانی کا سفر
شادؔ اِن لفظوں نے تو احساس ارزاں کر دیا
کس قدر تھا خُوبصورت بے زبانی کا سفر

خوشبیر سنگھ شاد

Comments