کب تلک یوں ہی مجھے خاک بہ سر چاہتی ہے

کب تلک یوں ہی مجھے خاک بہ سر چاہتی ہے
کب تلک یوں ہی مجھے خاک بہ سر چاہتی ہے
اے تھکن! پوچھ تو کیا راہ گزر چاہتی ہے




پہلے کم پڑتی تھی اک دشت کی وسعت بھی اسے
اب یہ وحشت، در و دیوار میں گھر چاہتی ہے
کوئی امید کی صورت نہیں باقی دل میں
کوئی امید مگر دل میں بسر چاہتی ہے
روز مانوس مناظر سے لپٹتی ہے مگر
اک تماشا بھی نیا روز نظر چاہتی ہے
بوجھ لگتے ہیں طبیعت کو یہ یکساں لمحے
ایسے ماحول سے اب رُوح مفر چاہتی ہے
گھر سے سورج کو نکلنے کی اجازت ہی نہ ہو
تیرگی اپنی ہی شرطوں پہ سحر چاہتی ہے
شادؔ، یہ فکر کسی طور نہیں مانتی ہے
ہر صدف میں کوئی نایاب گہر چاہتی ہے

خوشبیر سنگھ شاد

Comments