کہاں تک رازِ عشق افشا نہ کرتا

کہاں تک رازِ عشق افشا نہ کرتا
مثل ہے یہ کہ مرتا کیا نہ کرتا
رکھے ہے گم جو اُس یادِ دہن میں
الٰہی اس سے تو پیدا نہ کرتا
نہ کھلتا عقدهٔ کارِ دو عالم
تبسم سے جو تو لب وا نہ کرتا
نہ سنتا اس قدر لوگوں کی باتیں
تری چپ کا اگر چرچا نہ کرتا
خبر اپنی یہاں پھر کس کو رہتی
جو تو واں سے خبر بھیجا نہ کرتا
جو دل بھاری نہ کرتا اُس کے آگے
تو یوں اپنے کو میں ہلکا نہ کرتا
اگر مینا کی گردن خم نہ ہوتی
تو کیا ساقی کو میں سیدھا نہ کرتا
نہ بچتے آج دردِ ہجر سے ہم
اگر تو وعدهٔ فردا نہ کرتا
ہلاکو بھی اگر ہوتا تو ظالم
ستم کرتا مگر اتنا نہ کرتا
اگر پہلو میں ہوتا آج کو تو
تو دل اے جان یوں دھڑکا نہ کرتا
نہ کہتا اُس سے گر دل کی حقیقیت
تو جی کا مجھ سے وہ سودا نہ کرتا
جو زاہد کو نہ ہوتا خوفِ دوزخ
خدا کے واسطے رویا نہ کرتا
وہ پردے میں بھی ایک آفت ہے معروفؔ
غضب ہوتا اگر پردہ نہ کرتا

الہی بخش معروف

Comments