اس دیس کا رنگ انوکھا تھا اس دیس کی بات نرالی تھی

اس دیس کا رنگ انوکھا تھا اس دیس کی بات نرالی تھی
نغموں سے بھرے دریا تھے رواں گیتوں سے بھری ہریالی تھی

اس شہر سے ہم آ جائیں گے، اشکوں کے دیپ جلائیں گے
یہ دور بھی آنے والا تھا یہ بات بھی ہونے والی تھی

وہ روشن گلیاں یاد آئیں، وہ پھول وہ کلیاں یاد آئیں
سُندر من چلیاں یاد آئیں، ہر آنکھ مدھر متوالی تھی

کس بستی میں آ پُہنچے ہم، ہر گام پر ملتے ہیں سو غم
پھر چل اس نگری میں ہمدم ہر شام جہاں اُجیالی تھی

وہ بام و در وہ راہگذر، دل خاک بسر جاں خاک بسر
جالب وہ پریشان حالی بھی کیا خوب پریشاں حالی تھی

حبیب جالب

Comments