سر حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی

سرِ حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی
کلام بھی نہ جیا اور مر گئے ہم بھی

یہ عہد ایک مسیحا نفَس میں زندہ تھا
رہا نہ وہ بھی سلامت، بکھر گئے ہم بھی

چمک اُٹھا تھا وہ چہرہ، دھڑک اُٹھا تھا یہ دل
نہ اُس نے راستہ بدلا، نہ گھر گئے ہم بھی

بتوں کی طرح کھڑے تھے ہم اک دوراہے پر
رُخ اُس نے پھیر لیا، چشمِ تر گئے ہم بھی

کچھ ایسے زور سے کڑکا فراق کا بادل
لرز اُٹھا کوئی پہلو میں، ڈر گئے ہم بھی

جدائی میں بھی ہم اک دوسرے کے ساتھ رہے
کڈھب رہا نہ وہ، خالد سنور گئے ہم بھی

خالد احمد

Comments